چین صرف آبادی کے معاملے میں بڑا نہیں بلکہ اس کے ارادے اور منصوبے بھی بڑے ہیں۔ ایسا ہی ایک منصوبہ کمپیوٹر چپ بنانے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بننا بھی ہے۔ اس وقت سیمی کنڈکٹر بنانے والوں میں سب سے بڑا حصہ امریکی کمپنی انٹل اور جنوبی کوریا کی کمپنی سام سنگ کا ہے۔ اس کے بعد تائیوان، سنگاپور، اور جاپان سر فہرست ہیں۔ پہلی دس کمپنیوں میں چین کی کوئی کمپنی شامل نہیں ہے۔
چینی حکومت نے سال 2014ء میں ایک اعلان کیا تھا کہ وہ کمپیوٹر چپس بنانے اور ان پر تحقیق و ترقی کے لئے 100 ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرے گا تاکہ امریکہ کو اس میدان میں پیچھا چھوڑا جاسکے۔ چین اس وقت فیبری کیشن پلانٹس (وہ فیکٹریاں جہاں مائیکرو چپس تیار کی جاتی ہیں) لگانے کے لئے ایک بڑی رقم خرچ کررہا ہے۔ تاہم ایک بڑی کنسلٹنگ فرم کے مطابق صرف پیسہ خرچ کرنا ہی کافی نہیں اور صرف بڑی سرمایہ کاری سے چین اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔
چپ بنانے والی کمپنی XMC جو کہ چینی حکومت کی ملکیت ہے، اس وقت بہت محنت سےایسی فیکٹریاں تشکیل دینے میں مصروف ہے جو کہ NANDفلیش میموری اور DRAM چپس بنا سکیں۔ دنیا بھر میں جو سیمی کنڈکٹر آلات بنائے جاتے ہیں، ان میں NAND فلیش میموری اور DRAM کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ امید ہے کہ ان فیکٹریوں میں سے ایک 2017ء تک کام کا آغاز کردے گی۔
اس سال کے آغاز میں چین نے اپنا سپر کمپیوٹر TaihuLight مکمل کیا۔ یہ دنیا کا تیز ترین سپر کمپیوٹر ہے اور اس نے مائیکرو پروسیسر بنانے والی مغربی کمپنیوں کو حیرت میں مبتلا کردیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اس سپر کمپیوٹر میں چین نے اپنے تیار کردہ مائیکرو پروسیسر استعمال کئے تھے۔ ورنہ اس سے پہلے جو بھی سپر کمپیوٹر چین میں بنتا تھا، اس میں انٹل، اے ایم ڈی وغیرہ کے بنائے ہوئے پروسیسر استعمال کئے جاتے تھے اور امریکہ ماضی میں ان کمپنیوں کو چین کو پروسیسر بیچنے سے منع بھی کرچکا ہے۔
لیکن چین کے لئے مغربی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑنا آسان نہیں ہے۔ اگرچہ اس وقت بھی مائیکرو چپس کی ایک بڑی تعداد چین میں تیار کیا جاتی ہے، لیکن اس میدان میں دنیا کا سب سے بڑا ملک بننے کے لئے چین کو ابھی بہت وقت لگے گا۔ کنسٹلنگ فرم بین اینڈ کمپنی کا اندازہ ہے کہ 2020ء تک دنیا بھر میں کل تیار کی گئی میموری، لاجک اور اینالاگ چپس میں سے 55 فی صد چین میں تیار کی جانے لگیں گی۔ اس وقت سیمی کنڈکٹرز کی عالمی مارکیٹ میں چین کا حصہ صرف 15 فی صد ہے۔ چینی حکومت 2025ء تک اس حصے کو 70 فی صد تک لے جانا چاہتی ہے۔
لیکن بین اینڈ کمپنی کے ماہرین کا ماننا ہے کہ چین کا یہ ہدف غیر حقیقی ہے اور اسے حاصل کرنا بے حد مشکل ہے۔ چین کے پاس اس وقت وہ تکنیکی استعداد موجود نہیں جو اسے مغربی کمپنیوں کے مدمقابل لا کر کھڑی کرسکے۔ چین صرف ایک ہی صورت میں اپنا ہدف حاصل کرسکتا ہے کہ وہ دوسری بڑی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری قائم کرے یا پھر انہیں خریدے۔ اس طرح اسے اپنے ہدف کے حصول کے لئے درکار ہنر مند افرادی قوت میسر آجائے گی۔ یہ بالکل نئے سرے سے ہنر مند افراد کی فوج تیار کرنے سے کہیں زیادہ آسان کام ہے۔ اگر چین اس حکمت عملی کے برخلاف جاتا ہے تو پھر اس کے لئے 70 فی صد مارکیٹ شیئر حاصل کرنا ناممکن ہوگا۔