بچوں کی اسمارٹ واچ اتنی محفوظ نہیں

اسمارٹ واچز اب کوئی نئی چیز نہیں رہیں بلکہ اب تو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی بچوں کی اسمارٹ گھڑیاں مقبول ہو رہی ہیں لیکن ناروے کی کنزیومر کونسل کی ایک رپورٹ میں بھیانک انکشاف ہوا ہے کہ ان گھڑیوں کو باآسانی ہیک کیا جا سکتا ہے اور یوں یہ بچوں کو تحفظ دینے کے بجائے ان کے لیے مزید خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔

یورپین کنزیومر آرگنائزیشن کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ کے مطابق میں یہ اسمارٹ گھڑیاں والدین کو ذہن میں رکھ کر تیار کی جاتی ہیں تاکہ وہ بچوں پر نظر رکھیں اور ہمہ وقت اُن سے رابطے میں رہیں۔ لیکن یہ "تحفظ کا غلط احساس” ہے کیونکہ تکنیکی معلومات رکھنے والا کوئی بھی شخص اسمارٹ واچ کو ہیک کرکے اس میں تبدیلیاں کر سکتا ہے۔

جیسا کہ کوئی بھی ہیکر کسی گھڑی کو ہیک کرکے سن سکتا ہے کہ بچہ اس وقت کیا کر رہا ہے۔ وہ گھڑی کے جی پی ایس تک رسائی حاصل کرکے جان سکتا ہے کہ بچہ اس وقت کہاں موجود ہے بلکہ اس کی جی پی ایس لوکیشن بھی بدل سکتا ہے، جو والدین کے لیے پریشان کن اطلاع ہے۔ پھر وہ کیمرے پر کنٹرول کرکے تصاویر بھی لے سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر "SOS” جیسا اہم بٹن بھی اتنا محفوظ نہیں ہے۔

کونسل نے گیٹر 2،ٹینی ٹیل، وکس فیورڈ اور ایکسپلورا نامی اداروں کی بنائی گئی گھڑیوں پر تحقیق کے لیے سکیورٹی ادارے کی خدمات حاصل کیں اور پایا کہ ٹینی ٹیل کی بنی ہوئی گھڑیوں میں خاص طور پر سکیورٹی مسائل ہیں ۔ ادارے نے ان گھڑیوں کو فوری طور پر مارکیٹ سے اٹھانے اور مسائل کو حل کرنے کا مطالبہ کیا ۔

جب ناروے جیسے ترقی یافتہ ملک میں بننے والی گھڑیوں میں یہ تکنیکی مسائل ہو سکتے ہیں تو ہمارے ہاں جہاں مارکیٹ میں گھٹیا معیار کی مصنوعات کے ڈھیر پڑے ہیں، ان کی سکیورٹی کا عالم کیا ہوگا؟ صرف تصوّر ہی کیا جا سکتا ہے۔

اسمارٹ واچسیکیورٹی