عالمی منظرنامے پر مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کا سورج طلوع ہوچکا ہے اور جیسے ہی عروج پر پہنچے گا بڑے پیمانے پر بے روزگاری کو جنم دے گا کیونکہ جن کاموں سے آج بیشتر انسانوں کا روزگار جڑا ہوا ہے، وہ خودکار طور پر ہونے لگیں گے۔ آکسفرڈ کے محققین نے خاص طور پر چند شعبوں کی جانب اشارہ کیا ہے، جو ‘آٹومیشن’ کے نتیجے میں ختم ہو جائیں گے کیونکہ مصنوعی ذہانت کی آمد سے یہ کام بہت کم قیمت پر تکمیل تک پہنچیں گے۔ ان میں ریئل اسٹیٹ بروکر بھی ہیں، انشورنس کلیم ایڈجسٹ کرنے کا کام بھی اور سب سے نمایاں کھیل میں ریفری کی ضرورت۔
کیا بڑے پیمانے پر بے روزگاری پھیلنے کا نتیجہ اچھا نکلے گا؟ ہرگز نہیں اور یہ بات ہمیں تاریخ بتاتی ہے۔ جب بھی نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے لوگوں کی ملازمتیں ختم ہوئیں، ایک ہی نتیجہ نکلا ہے، وہ ہے بغاوت!
19 ویں صدی کے انگلینڈ میں جب صنعت کاری عمل میں آئی تو اس نے لیڈوائٹ بغاوت کو جنم دیا۔ بدقسمتی سے تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ پسے ہوئے طبقے کا احتجاج مسئلے کو حل نہیں کرتا۔ برطانیہ کی فوج نے اس بغاوت کو کچل کر رکھ دیا۔ حکومت نے کارخانوں کو تحفظ دیا اور صنعت کاری کا عمل جاری و ساری رہا۔
لیکن تب کیا ہوگا جب بالائی طبقے کا مہارت رکھنے والا کوئی فرد ملازمت سے باہر ہوگا؟ یہی وہ سوال ہے جو مصنوعی ذہانت کے پھیلنے کے نتیجے میں پیش آ رہا ہے۔ کیا ہوگا جب انتہائی تعلیم یافتہ وکیل، صحافی، بیوروکریٹ، کارپوریٹ مینیجر اور دیگر تخلیقی کام کرنے والوں کو ملازمت نہیں ملے گی؟ کیا اس کے نتیجے میں وائٹ کالر بغاوت جنم لے گی؟
90ء کی دہائی میں کمپیوٹر وژن کا شعبہ اتنا کمزور تھا کہ کمپیوٹر یہ تک نہیں جان پاتا تھا کہ یہ تصویر انسان کے چہرے کی ہے یا آملیٹ کی۔ یہ ایسا مسئلہ تھا کہ اس زمانے میں اس شعبے سے وابستہ افراد سمجھتے تھے کہ وہ اپنی زندگی میں اس کو حل ہوتا نہیں دیکھ سکیں گے۔ لیکن صرف دو دہائیوں میں ہارڈویئر، بگ ڈیٹا، پیریلل پروسیسنگ اور نیورل نیٹ ورکس نے جو کیا ہے، وہ آپ کے سامنے ہے۔ اب کمپیوٹر نہ صرف تصویر کے مواد کو سمجھ سکتا ہے بلکہ دو زبانوں کے درمیان ترجمہ کرنے، مضامین لکھنے اور موسیقی تک بنانے کا کام کر رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے جدید سسٹم تو مالیاتی تجزیہ کر رہے ہیں اور خبریں بھی بنا رہے ہیں۔ یعنی یہ خیال اب پرانا ہوگیا کہ کمپیوٹر وہ نہیں کر سکتا جو انسان کر سکتا ہے۔ یعنی وہ تخلیقی ذہن نہیں رکھ سکتا اور جذبات ظاہر نہیں کر سکتا۔ ایک، ایک کرکے یہ سب مفروضے بن چکے ہیں۔
گوگل کے ڈیپ ڈریم کو دیکھ لیں آپ کواندازہ ہو جائے گا کہ مصنوعی ذہانت انسانی عقل کے قریب پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ ایک تربیت یافتہ نیورل نیٹ ورک ہے جو ایسی تصاویر تخلیق کر رہا ہے جو واقعی تخلیقی ذہن کی کاوش لگ رہی ہیں اور شاید ہی کوئی یہ کہے کہ انسان نے تخلیق نہیں کیں۔
اب عالم یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والے ٹیکنالوجی ماہرین کو بھی خطرے کی بو محسوس کر رہے ہیں۔ سیلف ڈرائیونگ کار ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک نے کہا کہ مصنوعی ذہانت انسانوں کے وجود کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ہوگا۔ بل گیٹس کا کہنا ہے کہ بحران ناگزیر ہے اور سمجھ نہیں آتی ہے کہ بیشتر لوگ اس معاملے کو سنجیدہ کیوں نہیں لے رہے؟ اگر مستقبل بین رے کرزویل کی بات مان لی جائے تو 2045ء تک کمپیوٹر کی عقل ہر لحاظ سے انسان کی صلاحیتوں کے برابر ہو جائے گی، جسے تکنیکی زبان میں ‘singularity’ کہا جاتا ہے۔
عام لوگوں کے لیے تو یہ قیامت ہوگی، لیکن اس میں امید کی ایک کرن بھی ہے۔ انیسویں صدی میں صنعت کاری کے خلاف بغاوت کے ناکام ہونے کے کئی اسباب تھے۔ اس میں شریک افراد کا تعلق سیاسی طور پر پسا ہوئے طبقے سے تھا، وہ منظم نہیں تھے اور انہوں نے مسئلے کی درست نشاندہی نہیں کی۔ اس کے مقابلے میں وائٹ کالر تحریک بااثر افراد کے ساتھ زیادہ گہرے تعلق رکھتی ہے، وہ زیادہ موثر انداز میں منظم ہو سکتی ہے۔ وہ زبان و بیان کی ایسی صلاحیت بھی رکھتی ہے جو عوام کی ہمدردی حاصل کرے گی کیونکہ عوام خود بھی بے روزگاری کے عفریت کا سامنا کر رہے ہوں گے۔
اگر مصنوعی ذہانت کے خلاف وائٹ کالر بغاوت ہوتی ہے تو مزدوروں کی بغاوت کے مقابلے میں یہ طاقت کے مراکز کو ہلا سکتی ہے اور اس سیاسی و اقتصادی نظام کو بھی، جو دولت پر مرکوز ہے، عدم مساوات کو بڑھاتا ہے، اداروں کو عوامی احتساب سے بچاتا ہے اور دولت اور ریاست کو الگ کرنے میں ناکام ہے۔
مصنوعی ذہانت سے پیدا ہونے والا بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ یہ اُن کو فائدہ پہنچائے گا جو اس ٹیکنالوجی کے مالک ہیں جبکہ باقی سب لوگ اس سے متاثر ہوں گے۔ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے، ٹیکنالوجیکل نہیں۔ یہ ٹیکنالوجی سرمایہ دارانہ نظام میں بے انصافی کو مزید بڑھاوا دے گی۔ مصنوعی ذہانت تقریباً سبھی کو بے روزگار کر سکتی ہیں، ان کو بھی جو پہلے اشرافیہ میں شمار ہوتے تھے۔