ہالی ووڈ فلم آرمی آف ون میں پاکستان کی غلط تصویر کشی پر تبصرہ

جب بھی دنیا میں پاکستان کا ذکر ہوتا ہے سبھی کے ذہنوں میں ایک عجیب اُجڑے ہوئے، دہشت گرد اور غربت کے مارے ملک کا تصور اُبھرتا ہے۔ چاہے یہ انجان لوگوں کا ذہن ہو جنھوں نے پاکستان کو کبھی دیکھا ہی نہیں یا ایسے لوگوں کا ذہن جو کہ جان بوجھ کر انجان بننا چاہتے ہیں اور دنیا میں پاکستان کے متعلق ایسا تاثر قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

چند سال قبل جب فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ نے ٹیلی نار کی تعاون سے پاکستان میں مفت بنیادی انٹرنیٹ فراہم کرنے کا پروگرام لانچ کیا تھا تو اپنی ٹائم لائن پر اس خوشخبری کی اطلاع دیتے ہوئے انھوں نے پاکستان کے حوالے سے انتہائی مضحکہ خیز تصویر استعمال کی تھی۔ اس تصویر میں ایک صاحب کو فون کان سے لگائے گدھا پکڑے ہوئے ایک رکشے کے سامنے سے گزرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

اس پوسٹ پر پاکستانیوں نے بھرپور احتجاج کرتے ہوئے پاکستان کی خوبصورت تصویریں بطور تبصرہ پوسٹ کیں تاکہ مارک کو احساس دلایا جا سکے کہ یہ تصویر موجودہ اور جدید پاکستان کی نمائندگی نہیں کرتی۔ مارک زکربرگ نے اس بات کو محسوس کرتے ہوئے دوبارہ نئی پوسٹ کی اور اس بار قدرے بہتر تصویر استعمال کی۔ اس پوری کہانی کا احوال آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں:

مارک زکربرگ نے پاکستان کے حوالے سے اپنی غلطی تسلیم کر لی

امریکی فلم انڈسٹری جسے ہالی ووڈ کہا جاتا ہے وہ بھی پاکستان اور پاکستانیوں کو بُرا دکھانے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اکثر فلموں میں دکھائے گئے دہشت گردوں کا تعلق پاکستان سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خاص طور پر مذہب اسلام کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دہشت گردوں کا تعلق کسی بھی ملک سے دکھایا جائے البتہ انھیں مسلمان ضرور ظاہر کیا جاتا ہے۔

اس حوالے سے تازہ ترین فلم ’’آرمی آف ون‘‘ ایک انتہائی بھونڈی اور مضحکہ خیز کوشش ہے۔ اس فلم میں ہیرو کا کردار نکلس کیج نے نبھایا ہے جبکہ فلم کی ہدایت کاری کے فرائض لیری چارلس نے انجام دیے ہیں جو اس سے قبل بھی ایسی کئی مضحکہ خیز فلمیں جیسے کہ  دی ڈکٹیٹر، برونو اور بورات وغیرہ بنا چکے ہیں۔ خاص طور پر ڈکٹیٹر فلم میں لیری چارلس نے اسلام کو تمسخر کا نشانہ بنایا ہے۔

بہرحال آرمی آف ون ایسی فلم ہے جسے دیکھنے کے بعد ہر پاکستانی کا خون کھول اُٹھتا ہے کیونکہ اس میں پاکستان کو انتہائی پسماندہ ملک کے طور پر دکھایا گیا ہے۔

یہ فلم دراصل ایک حقیقی کردار گیری فلکنر Gary Faulkner  پر مبنی ہے جو کہ 2005 اسامہ بن لادن کی تلاش میں پاکستان آ چکا ہے۔

ان صاحب کا خیال تھا کہ انھیں خدا نے حکم دیا ہے کہ جاؤ اور اسامہ بن لادن کو پکڑ کر لاؤ تاکہ اسے دہشت گردی کے جرم میں احتساب کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔

فلم کا ٹریلر دیکھیے:

فلم میں گیری فالکنر یعنی نکلس کیج انتہائی مضحکہ خیز طریقے سے پاکستان پہنچتا ہے اور یہیں سے فلم میں بے وقوفیوں اور بونگیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ فلم کی کہانی کا کوئی سر پیر سمجھ ہی نہیں آتا اس کے علاوہ پاکستان کا ایسا منظر پیش کیا گیا ہے کہ پاکستانی اسے دیکھ کر سر پیٹنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دراصل پاکستان کے طور پر یہ فلم مراکش میں فلمائی گئی ہے اور پاکستان کا انداز دینے کے لیے جگہ جگہ اُردو زبان کا سہارا لیا گیا ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ یہ اردو بھی گمان ہوتا ہے گوگل سے ترجمہ کی گئی ہے کیونکہ تقریباً ہر جگہ غلط ترجمہ استعمال ہوا ہے۔

اس کے علاوہ اسلام آباد جیسے پاکستان کے جدید ترین اور خوبصورت شہر کو کسی افغان گاؤں جیسا دکھایا گیا ہے اور عوام بالکل بھی پاکستانی دکھائی نہیں دیتی۔ زبان کی بات کی جائے تو مقامی لوگوں کے مقامی زبان میں ایک یا دو ہی ڈائیلاگز ہیں جن میں وہ اردو نہیں بول رہے ہوتے۔ گیری فالکنر امریکہ سے پاکستان اپنی تلوار لیے اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے پہنچنے کے بعد ایسے اسلام آباد شہر بھر میں گھومتا پھرتا ہے جو دُور دُور تک اسلام آباد جیسا دکھائی نہیں دیتا۔ ان تمام باتوں سے صاف پتا چلتا ہے کہ ہدایت کار کو پاکستان کے بارے میں ایک فیصد بھی علم نہیں اور نہ ہی فلم بناتے وقت کسی قسم کا ہوم ورک کیا گیا ہے۔

اکثر ہم ہر غلط کام کے پیچھے مذاقیہ طور پر کہتے ہیں کہ یہ ضرور یہودیوں کی سازش ہے لیکن یہ فلم حقیقتاً یہودی سازش ہی محسوس ہوتی ہے کیونکہ فلم کے ہدایت کار لیری چارلس صاحب یہودی ہی ہیں۔ پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک دکھانے کے لیے فلم کی ابتدا میں ہی بتایا جاتا ہے کہ:

Mr. Faulkner travelled to one of the most dangerous places on the planet

شاید ہدایت کار کو پہلے سے اندازا تھا کہ  فلم سے کمائی کی امید رکھنا فضول ہے یا پھر فلم بنائی ہی اس مقصد کے لیے گئی ہے کہ پاکستان کو بُرے انداز میں دکھایا جائے اس لیے اسے صرف چند ہی سینما گھروں میں ریلیز کیا گیا۔ بنیادی طور پر فلم وڈیو آن ڈیمانڈ اور ڈی وی ڈی کی صورت میں ریلیز کی گئی ہے اور ریلیز سے قبل ہی فلم ٹورینٹ کے ذریعے ساری دنیا میں پھیل چکی تھی۔ فلمی ناقدین کی جانب سے بھی فلم کو منفی تبصرے ہی ملے اور ریٹنگز کے معاملے میں بھی یہ فلم انتہائی بری کارکردگی دکھا پائی۔

آئیے آپ کو اس فلم کے چند مناظر کی تفصیل دکھاتے ہیں جن سے آپ خود اس فلم کے گھٹیا معیار کا اندازہ لگا سکتے ہیں جبکہ پاکستان کی چند حقیقی تصاویر بھی ہم پیش کر رہے ہیں تاکہ آپ باآسانی موازنہ کر سکیں:

فلم میں گیری فالکنر پی آئی اے طیارے میں پاکستان آتے ہوئے

 


فلم میں اسلام آباد ایئرپورٹ اترنے کے بعد مسافر اپنا سامان وصول کرتے ہوئے

 

فلم میں اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لکھی اردو کا معیار ملاحظہ کریں

 

فلم میں اسلام آباد ایئرپورٹ پر تعینات امیگریشن آفسر

 

فلم میں ایئرپورٹ کا ایک اور منظر

 

فلم میں اسلام آباد ایئرپورٹ پر لکھی خوبصورت اردو

 

فلم میں ہیرو صاحب اسلام آباد کی سیر کرتے ہوئے

 

فلم میں دانت میں درد کی وجہ سے پاکستانی دندان ساز سے دانت نکلواتے ہوئے

 

فلم میں دکھایا گیا سی آئی اے کا دفتر
فلم میں دکھائے گئے سی آئی اے کے دفتر کا اندرونی منظر

 

فلم میں سی آئی اے اسلام آباد دفتر کی کھڑکی سے باہر کا منظر

 

اسلام آباد کی پہچان ہی اس کی حقیقی خوبصورتی ہے

 

فلم میں اسلام آباد کے ایک سینما گھر کے باہر کا منظر

 

فلم میں اسلام آباد کی ایک مارکیٹ کا منظر

 

فلم میں اسلام آباد میں موجود خواتین کے ایک ایروبک سینٹر کا منظر۔ جس کا اردو نام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے

 

فلم میں ہیرو صاحب کی اسلام آباد میں قیام گاہ

ان مناظر سے آپ اس فلم کے معیار کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس میں پاکستان کو کیا دکھایا گیا ہے۔

تبصرے (2)
Add Comment
  • Basit Khan

    chalta hai bhai, jahil amreekio ko kia pata ke Pakistan kia hai, wo is movie ko dekh kar apne friends se kehte hongay ke wo Pakistan ke baray me bohot kuch jantay hai hahahah

  • Ana Aya

    کیا ایسی فلم بنانے کی ذمے داری صرف فلم بنانے والوں پر ڈالی جاسکتی ہے؟ یا بیس کروڑ کی آبادی میں بسنے والے چالیس کروڑ افلاطون بھی اس کے ذمے دار ہیں؟