اس اسمارٹ دور میں تو گاڑیاں بھی اسمارٹ ہوتی جا رہی ہیں، بلکہ اب تو اتنی ہوگئی ہیں کہ مالک کو ہدایات دینے لگی ہیں۔ connected گاڑیوں کے جدید تصور کے حامی اسی خصوصیت کو ہر جگہ پیش کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ چندنسبتاً پرانی گاڑیوں نے بھی ایسی ڈائیگنوسٹک پورٹس پیش کردی ہیں جن کے ذریعے گاڑی کو مالک کے ساتھ connect کیا جا سکتا ہے۔
لیکن گاڑی میں diagnostic dongle لگانا خطرے سے خالی نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں گاڑی ہیک بھی ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوشوا سیگل اور ان کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ گاڑی کے لیے اسمارٹ فون کا مائیکروفون اور ایکسلرومیٹر ہی کافی ہیں۔ ان کی تحقیق ‘Engineering Applications of Artificial Intelligence’ حال ہی میں شائع ہوئی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ اسمارٹ فون کے ذریعے آڈیو ڈیٹا جمع کرکے جانا جا سکتا ہے کہ ایئر فلٹر کی تبدیلی کی ضرورت ہے یا نہیں۔
یہ خیال بالکل سادہ سا ہے۔ اصل آواز اور کسی بھی مسئلے کے نتیجے میں بگڑنے والی آواز اور ارتعاش سے پیدا ہونے والے سگنل مختلف ہوتے ہیں، اس لیے ان سے اشارے پکڑنا اور تجویز دینا۔ اس میں ایک اسٹینڈ مائیکروفون کے ساتھ ساتھ آئی فون6 کو بھی انجن کے شور کو ریکارڈ کرنے پر لگایا گیا۔ عام حالات میں انجن کی آواز کے سیمپل لینے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایئر فلٹر پر بھی مختلف تجربات کیے تاکہ اپنی ایپ کو ‘تربیت’ دے سکیں ۔ ان تجربات کے ذریعے انہوں نے ایسا الگورتھم تیار کیا ہے جو بہترین فلٹر اور خراب فلٹر کے درمیان فرق جان سکتا ہے ۔
ہو سکتا ہے آپ کو یہ اتنا متاثر کن نہ لگے لیکن اس کا مستقبل کافی روشن نظر آتا ہے۔ سیگل کا مقالہ ان ‘نیورل نیٹ ورکس’ کے بارے میں بھی بتاتا ہے جو ایئر اِن ٹیک میں خرابی کو بتاتے ہیں اور ای سی ٹی اور کیم شفٹ سینسر کی ناکامی اور سلنڈرز میں مسائل کو بھی، وہ بھی 95 فیصد درستگی کے ساتھ ۔ اس کےعلاوہ پہیوں کا بیلنس آؤٹ ہونے کو جاننے والے الگورتھم بھی موجود ہیں ۔
سیگل اس آئیڈیا کو کمرشلائز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لیے انہوں نے ڈیٹا ڈریون (Data Driven) کے نام سے ادارہ بنایا ہے ۔ وہ ایک ایپ بنانے پر کام کر رہے ہیں جو اگلے چھ ماہ میں مکمل ہو جائے گی اور 18 ماہ، یعنی ڈیڑھ سال میں کمرشل ریلیز کی جائے گی ۔