کہا جاتا ہے کہ کتاب کو اس کے سرورق سے مت جانچو ، لیکن مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی اب کچھ ایسا ہی کرے گی۔ ایک متنازعہ تحقیقی مقالے میں بتایا گیا ہے کہ محقق کمپیوٹر کے ذریعے مجرم کی شناخت کی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں۔ یہ پتا چلانے کی کوششوں میں ہیں کہ آیا کمپیوٹر کسی انسان کے چہرے کے خواص سے اس کے مجرم ہونے کے بارے میں بتا سکتا ہے یا نہیں۔ یعنی ایک ایسا کمپیوٹر سسٹم جو صرف کسی کا چہرہ دیکھ کر اندازہ لگائے گا کہ آیا یہ مجرم ہوسکتا ہے یا نہیں۔
یہ خبر ایسے لوگوں کے لیےیقیناً بری اور صدمے کا باعث ہوگی جن کے چہرے چھوٹے، اوپر والا ہونٹ خم دار اور آنکھیں چھوٹی ہوں۔ کیونکہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے مطابق ایسے چہرے والا شخص دھوکے باز ہو سکتا ہے ۔
شنگھائی جیاؤ ٹونگ یونیورسٹی کے دو محققین شیاؤلین وو اور شی ژیانگ نے یہ متنازعہ مقالہ تحریر کیا ہے۔ چونکہ یہ خاصی متنازعہ تحقیق ہے، اس لئے فی الحال انہوں نے اسے arXiv نامی آن لائن اوپن سورس جرنل میں شائع کیا ہے۔ اس مقالے کی ابھی کسی دوسرے محقق نے توثیق نہیں کی اور نہ ہی اسے باقاعدہ طور پر شائع کیا گیا ہے۔ دونوں محققین نے بتایا ہے کہ چہرے کے تین خواص رکھنے والا بظاہر مجرم ہو سکتا ہے۔ محققین کے مطابق ہونٹوں کا خم، آنکھوں کے اندرونی کونوں کا فاصلہ اور ناک کی نوک کے زاویے سے کسی کے مجرم ہونے کا پتا چلایا جا سکتا ہے۔ دونوں محققین نے اپنے تجربات کے نتائج کے بارے میں بتائے ہوئے کہا کہ چھوٹے چہرے، اوپر کے خم دار ہونٹ اور آنکھوں کے درمیان کم فاصلے والے مجرم ہو سکتے ہیں۔
اپنے مقالے میں دونوں نے لکھا کہ کسی انسان کے برعکس، کمپیوٹر وژن الگورتھم جذبات سے مکمل عاری ہوتا ہے، اس لئے وہ سابقہ تجربے، نسل، رنگ، جنس، عمر، مذہب یا کسی سیاسی وابستگی کو مدنظر بھی نہیں رکھتا اور فیصلہ تکنیکی بنیاد پر کرتا ہے۔
اس مطالعے میں محققین نے 18 سے 55 سال کے 1856 چینی افراد کے چہروں کا تجزیہ کیا۔ ان تمام تصاویر میں سے 730 تصاویر حقیقی مجرموں کی تھیں۔ ان تصاویر کو مشین لرننگ الگورتھم میں فیڈ کیا گیا، جس نے چار مختلف طریقے (کلاسیفائر)استعمال کرتے ہوئے چہرے کے خدوخال کا تجزیہ کیا۔ محققین نے لکھا کہ ان کے الگورتھم نے درستگی سےمجرموں کی شناخت کی۔
یہ موضوع بے حد متنازعہ ہے۔ جرائم سے نمٹنے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال نیا نہیں ہے۔ لیکن ٹیکنالوجی کا یہ استعمال ہضم کرنا بے حد مشکل ہے۔ مذکورہ بالا تحقیق میں استعمال کیا گیا ڈیٹا صرف چینی افرادکا ہے۔ یہ بات نامعلوم ہے کہ دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد جن کے نین نقش چینیوں سے مکمل طور پر الگ ہوتے ہیں، کے ڈیٹا کے ساتھ یہ الگورتھم کیا کرے گا۔ کمپیوٹر وژن الگورتھم بہت حد تک مستحکم ہوچکا ہے، لیکن ابھی اس میں ترقی کی بہت گنجائش باقی ہے۔ اس کی ایک مثال حال ہی میں ہونے والے مقابلہ حسن کی ہے جس میں ایک کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے لوگوں کی سیلفیوں کا تجزیہ کرکے خوبصورت ترین شکل و صورت تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔ دیکھا گیا کہ مذکورہ کمپیوٹر پروگرام سفید فام لوگوں کو ہی خوبصورت سمجھتا ہے اور سیاہ فام یا گندمی رنگ والے لوگوں کو نظر انداز کرتا ہے۔
یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ نمبر 124 میں شائع ہوئی
This is very subjective and controversial.