یونیورسٹی آف مشی گن کے محققین نے ایک پروسیسر تیار کیا ہے جو ایک مربع ملی میٹر کے حجم کا حامل ہے اور اس کی توانائی خرچ کرنے کی صلاحیت اتنی کم ہے کہ Thin-filmبیٹری جس کا حجم بھی پروسیسر کے برابر ہی ہے، اسے دس سال تک رواں دواں رکھ سکتی ہے۔ یہ کہنا ہے ڈیوڈ بلائیوکا جو مذکورہ بالا محققین کی ٹیم کے سربراہ اور مشی گن یونی ورسٹی میں الیکٹریکل انجینئرنگ کے پروفیسر ہیں۔
اس پروسیسر اور بیٹری کو ایک ساتھ جوڑنے پر ان کا مجموعی حجم ایک کیوبک ملی میٹر بنتا ہے۔ پروفیسر ڈیوڈ بائیو کے مطابق اس حجم کی حامل چپ کو بہ آسانی ایک موٹے کنٹیکٹ لینس میں سمویا جاسکتا ہے اور آنکھ میں دباو¿ کی جانچ کی جاسکتی ہے جو glaucoma کی شناخت کے لئے کارآمد ہے۔ نیز اس کو انسانی جلد کے نیچے نصب کرکے خون میں گلوکوز کی مقدار بھی جانچی جاسکتی ہے۔ اگر اس پروسیسر کے مزید استعمالات کی بات کی جائے تو یہ موحولیاتی سینسرز کے طور پر بھی استعمال کی جاسکتے ہیں جبکہ طبی اطلاقات کا بھی ایک وسیع میدان موجود ہے۔
یہ پروسیسر اپنی غیر فعالیت کے دوران صرف تیس پیکو واٹ پاور استعمال کرتا ہے ۔ جبکہ فعال ہونے پر یہ صرف 2.8 پیکو جول توانائی خرچ کرتا ہے۔ توانائی خرچ کرنے کی یہ مقدار اس وقت دستیاب کم ترین توانائی خرچ کرنے والے پروسیسرز سے بھی دس فیصد کم ہے۔
مشی گن یونی ورسٹی کے محققین کا بنیادی مقصدایک ایسی چپ کا ڈیزائن تیار کرنا تھا جو انتہائی کم وولٹیج پر چل سکے۔ پرسنل کمپیوٹرز میں استعمال ہونے والے مائیکروپروسیسر کو تقریباً 2 وولٹ درکار ہوتے ہیں جب کہ محققین کا بنایا ہوا پروسیسر ” Phoenix “ کو صرف پانچسو ملی وولٹس چاہئے ہوتے ہیں جو عام مائیکروپروسیسر کے مقابلے میں 75 فیصد کم مقدار ہے۔
بلائیو کہتے ہیں کہ اس وولٹیج پر پروسیسر کے کچھ حصے صحیح کام نہیں کرتے۔ اس لئے ان کی ٹیم نے پروسیسر کی میموری جو موجودہ پروسیسرز کے مقابلے میں بہت کم ہے اور پروسیسر کلاک کو ری ڈیزائن کیا ہے۔ اس نئے ڈیزائن کے مطابق اب پروسیسر کلاک انتہائی سلو ریٹ یعنی صرف سو کلو ہرٹز پر چلتی ہے۔ لیکن ان اقدامات کی وجہ سے اب پروسیسر کی بجلی خرچ کرنے کی صلاحیت انتہائی کم ہوگئی ہے۔یاد رہے کہ پرسنل کمپیوٹرز میں استعمال ہونے والے مائیکروپروسیسر گیگا ہرٹز رفتار پر کام کرتے ہیں۔