یہ مائیکرو چپس کمپیوٹر سے کمپیوٹر اور چپ سے چپ ہونے والی کمیونی کیشن کی رفتار کو ہزاروں گنا تک بڑھا سکتی ہے۔ اس وقت یہ رفتار گیگا بٹس فی سکینڈ میں ناپی جاتی ہے۔ جبکہ اس نئی چپ میں یہ رفتار پہلے ہی ٹیرا بٹس فی سکینڈ کی حد کو چھو چکی ہے اور اسے petaاور exaبٹس فی سکینڈ جیسی عظیم رفتار تک بڑھایا جاسکتا ہے۔
اس چپ کی تیاری ایک دہائی سے زائد عرصے پر محیط تحقیق کا نتیجہ ہے۔ اس چپ کا پہلا پرو ٹو ٹائپ 2010ء میں بنایا گیا تھا۔ اس سارے تحقیقی عمل کے نتیجے میں آئی بی ایم کے محققین ایک نئی ٹیکنالوجی سلی کان نینو فوٹو نکس (Silicon Nanophotonics) کو بنانے میں کامیاب ہوگئے جس میں ڈیٹا کی ترسیل کے لئے بجلی کے بجائے روشنی استعمال کی جاتی ہے۔90نینو میٹر چپ فیبری کیشن پروسس پر تیاری سے آئی بی ایم نے ثابت کیا کہ وہ ان جدید مائیکرو چپس کو تجارتی پیمانے پر بنا کر اگلے چند سالوں میں مارکیٹ میں فروخت کے لئے پیش کرسکتا ہے۔
یہ خبر سپر کمپیوٹنگ اور کلائوڈ کمپیوٹنگ کے میدان میں کام کرنے والوں کے لئے باعث مسرت ہے کیونکہ ان دونوں ہی میں سرور تا سرور اور چپ تا چپ ڈیٹا ٹرانسفر کی محدود رفتار ہی سب سے بڑا درد سر ہے۔
اس چپ کی تیاری میں آئی بی ایم نے دو سنگ میل عبور کئے ہیں۔ اول، آئی بی ایم مونو لیتھک سلیکان چپ پر برقی اجزاء (ٹرانسسٹر، کپیسٹر، رزسٹر) اور بصری اجزاء (موڈیولیٹر، فوٹو ڈیٹیکٹر، ویوو گائیڈ) نصب کرنے میں کامیاب ہوا۔ مونولیتھک چپ کا مطلب ہے کہ اس پر بصری اور برقی اجزاء بیک وقت بنائے گئے ہیں۔ یہ دونوں الگ الگ حصوں کے بجائے ایک ہی جگہ پر ایک دوسرے کے ساتھ ضم ہیں۔ دوسرا سنگ میل جو آئی بی ایم نے عبور کیا وہ اس چپ کو اُسی فیبری کیشن پروسس پر تیارکرنا ہے جس پر Xbox360، PS3وغیرہ کی چپس تیار کی جاتیں تھیں یعنی 90 نینو میٹر ایس او آئی (سلیکان آن انسولیٹر) پروسس۔ یہ شاید سب سے مشکل کام تھا کیونکہ یہ چپ تجرہ گاہ میں تیار کرنا ایک الگ بات تھی اور اسے پہلے سے زیر استعمال ایک تجارتی طور پر کامیاب پروسس پر بنانا ایک بالکل مختلف بات۔ تجارتی طور پر زیرِ استعمال 90نینو میٹر پروسس برقی اجزاء تیار کرنے کے لئے بنایا گیا تھا نا کہ بصری اجزائ۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے آئی بی ایم اس چپ کا پہلا پروٹو ٹائپ 2010ء میں ہی بنا چکا تھا لیکن اگلے دو سال اس نے اس چپ کی تجارتی پیمانے پر تیاری کے طریقہ کار کو واضح کرنے پر صرف کئے۔
ان چپس میں بصری موڈیولیٹرز اور جرمینیئم فوٹو ڈیٹیکٹر نصب ہیں جو 25گیگا بٹس فی سیکنڈ کی زبردست رفتار سے ڈیٹا بھیج اور وصول کرسکتے ہیں۔ 5×5ملی میٹر کی ڈائی پر ریسرچرز ایسے 50ٹرانسیورز نصب کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اگر دو ایسی ڈائیوں کو ساتھ جوڑ دیا جائے تو دونوں کے درمیان 1.2ٹیرا بٹس فی سیکنڈ کی بینڈوڈتھ ہوگی۔
آئی بی ایم کے محققین کی دس سال سے بھی زائد عرصے کی محنت آخر کار رنگ لے ہی آئی ہے اور اب ان کے پاس ایک ایسی سستی چپ ہے جو کمپیوٹر سسٹمز کی رفتار کو یکا یک کئی گنا تک بڑھا سکتی ہے۔ اسٹینڈرڈ فیبری کیشن پروسس پر تیاری کی وجہ سے امید کی جارہی ہے کہ اس چپ کی قیمت چند ڈالرز سے زیادہ نہیں ہوگی۔ لہٰذا اس کے استعمال سے کمپیوٹرز اور دیگر کمیونی کیشن سسٹمز کی قیمت پر کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا لیکن ان کی ڈیٹا ترسیل کرنے کی رفتار کئی گنا تک بڑھ جائے گی۔ خاص طور پر سپر کمپیوٹرز اور کلائوڈ کمپیوٹرز کے مختلف نوڈز کے درمیان ہونے والی کمیو نی کیشن جو اس وقت گیگا بٹس فی سیکنڈ ہوتی ہے، انتہائی کم قیمت میں ٹیرا بٹس یا شاید پیٹا بٹس فی سیکنڈ کی رفتار تک لے جائی جاسکتی ہے۔
ریسرچرز کے مطابق نظریاتی طور پر یہ چپس مستقبل کے کمپیوٹر سی پی یوز اور SoC( سسٹم آن چپ )میں استعمال کی جاسکیں گی۔ مستقبل کے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپس میں سی پی یو، ریم اور جی پی یو کے درمیان ہونے والی کمیونی کیشن اسی چپ کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ جبکہ نیٹ ورکس میں اسکے استعمال سے یہ آپ کے کمپیوٹر کو براہ راست انٹرنیٹ سروس پروئیڈر کے فائبر آپٹک نیٹ ورک سے منسلک کرکے ٹیرا بٹس فی سیکنڈ جیسی زبردست رفتار فراہم کرسکتی ہے۔