پے پال پر دھوکا کھانے سے کیسے بچا جائے؟
پے پال گزشتہ تقریباً دو دہائیوں سے آن لائن رقوم کی ترسیل کا اہم طریقہ مانا جاتا ہے۔ یہ بہت قابل بھروسہ سروس ہے لیکن شاطر دماغ کہیں بھی جعل سازی کے طریقے ڈھونڈ لیتا ہے اور پے پال پر بھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اس کے اینٹی-اسکیم(anti-scam) سسٹم کو دھوکا دے کر اپنا کام نکلوا لیتا ہے۔ اس لیے ہر پے پال صارف کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ دھوکے باز پے پال پر کس طرح کام کرتے ہیں اور ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
1۔ جعلی ای میل
پے پال پر جعل سازی کا یہ سب سے عام طریقہ ہے کہ جس میں کسی چیز کے بدلے میں آپ کو رقم بھیجنے پر رضامندی کا اظہار کیا جائے۔ عموماً کوئی بھی رقم وصول ہونے پر پے پال کی جانب سےاطلاعاً ایک ای میل بھیجی جاتی ہے۔ جعل ساز یہ کرتے ہیں کہ خود ایسی ای میل ڈیزائن کرکے بھیجتے ہیں جس میں اتنی رقم کی آمد کا اطلاع دی جاتی ہے، جو آپ کو اس نے ادا کرنی ہے۔
یوں جعل ساز یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس نے پیسے بھیج دیے ہیں اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ محض ای میل دیکھ کر ہی مطمئن ہو جائیں کہ ادائیگی ہوگئی ہے اور اسے مال بھیج دیں۔ اس طرح جعل ساز کو چیز تو مل جاتی ہے لیکن آپ کو پیسہ نہیں ملتا۔
حل
اس مسئلے کا حل بہت سادہ ہے۔ اگر آپ ‘ای بے’ (ebay) جیسی تھرڈ پارٹی ویب سائٹ کے ذریعے مال فروخت کر رہے ہیں تو ادائیگی کی تصدیق وہیں سے دیکھیں۔ اگر تھرڈ پارٹی والا معاملہ نہ بھی ہو تو آپ بیلنس کے لیے پے پال کی ویب سائٹ پر ہی جائیں اور وہیں پر چیک کریں کہ رقم موصول ہوئی ہے یا نہیں۔ اگر آپ کو پے پال پر ادائیگی نظر نہ آئے تو کبھی ڈلیوری نہ دیں۔ ایسی کوئی بھی جعلی ای میل ملے تو اسے پے پال کو [email protected] پر فارورڈ بھی کریں۔
یہ بھی پڑھیے: کیا پے پال اکاؤنٹ پاکستان میں رہتے ہوئے بنایا جا سکتا ہے؟
2۔ اوور پے پیمنٹ کی ری فنڈنگ
آپ ایک چیز آن لائن فروخت کر رہے ہیں اور اس کی قیمت اور ڈاک کے خرچے پر آپ کا خریدار کے ساتھ اتفاق ہو چکا ہے۔ جب خریدار آپ کو رقم بھیجتا ہے تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے کچھ زیادہ پیسے بھیجے دیے ہیں۔ اب خریدار دعویٰ کرے گا کہ یہ حادثاتی طور پر ہوگیا ہے یا پھر یہ ان کی منتخب کردہ کوریئر سروس کی اضافی فیس ہے۔ اب وہ کہیں گے کہ آپ یہ اضافی رقم انہیں بینک وائر کے ذریعے واپس بھیج دیں یا شپنگ کمپنی کو دے دیں۔
لیکن یہاں ایک مسئلہ یہ ہے خریداری چوری شدہ بینک اکاؤنٹ یا کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی سے کی گئی ہوگی۔ اس صورت میں بینک جب بھی فراڈ ٹرانزیکشنز پکڑے گا تو ان کی رقوم واپس لے لی جائیں گی یعنی آپ کو کی گئی ادائیگی بھی واپس ہو جائے گی۔ یوں پیسہ بھی آپ کے اکاؤنٹ سے نکل گیا اور جعل ساز کو چیز بھی مل گئی یعنی آپ کے ہاتھ کچھ نہیں لگا۔
حل
زیادہ پیسے موصول ہونے کی صورت میں آپ مال ڈلیور کرنے سے پہلے بذریعہ پے پال ہی ری فنڈ کریں۔ اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے، یا آپ پہلے ہی پیمنٹ قبول کر چکے ہیں، تو بہتر یہی ہے کہ پے پال پر سپورٹ ٹکٹ کھولیں تاکہ اس بارے میں جان سکیں کہ اب آگے کیا کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے: کریڈٹ کارڈ فراڈ کیسے ہوتے ہیں؟
3۔ ڈلیوری تفصیلات کی تبدیلی
آپ نے اپنا مال فروخت کیا لیکن خریدار نے پیکیج بھیجنے کی تفصیلات میں تبدیلی کردی۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی شپنگ کمپنی کا اکاؤنٹ استعمال کرنا چاہتے ہیں جو ان کے دعوے کے مطابق "سستا پڑتا ہے۔” لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اپنی ڈلیوری خریدار کے ہاتھ میں دینے کا مطلب ہے مصیبت کو آواز دینا۔ اگر آپ اُن کی شپنگ سروس استعمال کرتے ہیں تو وہ کمپنی کو کہہ سکتا ہے کہ پیکیج کو کہیں اور بھیج دیں۔ پھر پے پال کی ٹرانزیکشن میں موجود تفصیلات سے بھی ٹکراؤ پیدا ہو جائے گا۔ آپ کا بھیجا گیا مال ٹرانزیکشن تفصیلات میں موجود پتے سے بالکل مختلف پتے پر پہنچ گیا تو بات پے پال کے دائرہ اختیار سے بھی باہر ہو جائے گی۔
خریدار مال وصول کرنے کے بعد اس معاملے پر ہنگامہ کھڑا کرے گا اور دعویٰ کرے گا کہ اسے چیز موصول ہی نہیں ہوئی۔ آپ جب پے پال ٹرانزیکشن میں موجود پتے کے ساتھ ڈلیوری کا ثبوت دیں گے تو پھنس سکتے ہیں کیونکہ فروخت کرنے والے نے ڈلیوری کہیں اور کروائی ہے۔ اس لیے آپ کے پاس اب پتے کی کوئی تصدیق نہیں، اور پتہ بھی ایسا جو پے پال کے ریکارڈ میں موجود نہیں۔ یوں آپ ثبوت کھو بیٹھیں گے اور جعل ساز اپنا کام کر جائے گا۔
حل
ہمیشہ ڈلیوری چارجز لیں، اپنے شپنگ اکاؤنٹس استعمال کریں اور خریدار کو اپنے کندھوں پر سوار مت ہونے دیں۔ اگر کسی سے واقعی غلطی ہوگئی ہو اور وہ پتہ درست کروانا چاہے تو اسے پے پال ایڈریس چینج کے ذریعے حل کریں۔ بالا ہی بالا معاملہ طے کیا تو پھنسنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
4۔ کاروباری ادارے کے لیے فرینڈز اینڈ فیملی کا استعمال
آپ ایک چیز خرید رہے ہیں اور بیچنے والا ایک ‘زبردست آئیڈیا’ پیش کرے کہ پے پال کی فیس ادا کیے بغیر کام کرلیتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ بیچنے والا شخص آپ کو اپنا ای میل ایڈریس دے اور کہے کہ معاملہ پے پال فرینڈز اینڈ فیملی کے ذریعے حل کر لیتے ہیں کیونکہ اس میں فیس لاگو نہیں ہوتی۔
دراصل پے پال کی فیس لینے کی ایک اہم وجہ ہے اور وہ ہے آپ کے لین دین کو محفوظ بنانا۔ فرینڈز اینڈ فیملی کا مطلب ہے کہ خریدار اور فروخت کنندہ دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں اور فیس اسی لیے نہیں لی جاتی کیونکہ یہ معاملہ رقم کی سادہ ترسیل کا ہو جاتا ہے۔ لوگ اسے اپنے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں میں تحفوں اور دیگر عام ادائیگی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن خریداری میں معاملہ اتنا سادہ نہیں ہوتا اس لیے اگر فرینڈز اینڈ فیملی کے ذریعے معاملہ طے کریں گے تو اسے پے پال کی جانب سے پروٹیکشن حاصل نہیں ہوگا۔ آپ خود تصور کیجیے کہ جسے آپ نے ‘فرینڈ اینڈ فیملی’ میں قرار دیا ہے اگر وہ آپ کو چیز نہ بھیجے تو کیا ہوگا؟ پے پال تو پھر کچھ نہیں کر سکتا۔
حل
حل سادہ سا ہے، فیس چاہے کتنی ہی بری کیوں نہ لگے، اس کی اہمیت ہے۔ آن لائن چیزیں خریدتے ہوئے ہمیشہ جائز لین دین کریں اور اپنے قریبی اور جاننے والے افراد کے سوا کسی کے لیے ‘فرینڈز اینڈ فیملی’ کا استعمال نہ کریں۔ یہ پے پال قواعد و ضوابط کے بھی خلاف ہے کہ کوئی فروخت کنندہ کاروباری لین دین کے لیے ‘فرینڈز اینڈ فیملی پیمنٹ’ کا استعمال کرے۔ اس لیے جب بھی ایسا کوئی معاملہ ہو، اسے رپورٹ کریں اور پے پال کے علم میں لائیں۔
5۔ پے پال ٹرانزیکشن کو دھوکا دینے کی کوشش
پے پال کی مضبوط سکیورٹی سے بچنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اسے استعمال ہی نہ کیا جائے۔ اس میں جعل ساز کرتا یہ ہے کہ کوئی ایسی چیز خریدتا ہے جس کے لیے پے پال ادائیگی ہو سکتی ہو۔ آپ لین دین کرتے ہیں اور اچانک وہ شخص اصل ڈیل سے انکار کرتے ہوئے پیمنٹ کا طریقہ بدل دے جیسا کہ بینک وائر یا کوئی دوسری ادائیگی سروس منتخب کرلے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے اس کے لیے وہ آپ کو لالچ بھی دے۔
حل
اگر پے پال کے ذریعے لین دین کرنا چاہتے ہیں تو اس سے پیچھے نہ ہٹیں۔ اگر کوئی اصل شرائط پر آپ کے ساتھ لین دین نہیں کر سکتا تو اس کے ساتھ سودا ہی مت کریں، چاہے اس کے لالچ دینے کے طریقے کتنے ہی دلکش کیوں نہ لگیں، کیونکہ لالچ بری بلا ہے۔
بلاشبہ پے پال انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ قابل بھروسہ پیمنٹ سروس ہے لیکن اس کی سکیورٹی کو دھوکا دینے والے بھی موجود ہیں۔ اس لیے چوکنّے اور ہوشیار رہیں۔ آپ کو کچھ اندازہ تو ہوگیا ہوگا کہ یہ فراڈی کس طرح کام کرتے ہیں اور عام طور پر کون سے طریقے استعمال کرکے دھوکا دیتے ہیں۔
Comments are closed.