گھر سے کام کرنے والے زیادہ پیداواری صلاحیت کے حامل، تحقیق
انٹرنیٹ نے دنیا کے دور دراز مقامات اور باسیوں کو ایک دوسرے سے منسلک کردیا ہے، یہاں تک کہ دفتر اور ملازم بھی باہم مل گئے ہیں۔ اب چاہے ملازم دفتر میں موجود ہو یا نہ ہو، دونوں صورت میں اس کا دفتر سے براہ راست رابطہ رہتا ہے بلکہ اب تو ایسے لوگوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو دفتر نہیں جاتے، بلکہ گھر سے ہی کام کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے ایک عام ذہن یہی سمجھتا ہے کہ یہ کام کم کرتے ہوں گے اور گھریلو کام نمٹانے میں زیادہ وقت صرف کرتے ہوں گے یا پھر ٹیلی وژن پر ٹاک شوز دیکھتے ہوں گے، لیکن ایک تحقیق بتا رہی ہے کہ درحقیقت گھر سے کام کرنے والے لوگ زیادہ پیداواری صلاحیت کےحامل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ دفتر میں کام کرنے والوں کے مقابلے میں کام کو کہیں زیادہ وقت دیتے ہیں اور اس کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے کہ یہ مطلوبہ و درکار معیار سے آگے جائیں گے۔
ہو سکتا ہے کہ بظاہر یہ سست الوجود لگیں، گھر پر موجودگی کی وجہ سے بہت ساری چیزیں ان کے کام میں مداخلت کریں، جی ہاں! وہی "ایک پاؤ دہی لانا،” لیکن یونیورسٹی آف کارڈف کی تحقیق کے مطابق اگر کام کے اصولوں کی بات کی جائے تو ایسے افراد میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں ہی برطانیہ میں ایسے افراد کی تعداد 40 لاکھ سے زیادہ ہے جو اپنا نصف سے زیادہ کام کا وقت گھر سے کرتے ہیں جبکہ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں بھی یہ تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔
کارڈف یونیورسٹی کی تحقیق کے نتائج اسکل اینڈ ایمپلائمنٹ سروے سے لیے گئے ہیں، جس میں تین سالوں کا ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے دفاتر میں اور اس سے باہر سے کام کرنے والوں کی عادات کا تقابل کیا گیا ہے۔
تحقیق کے سربراہ کارڈف یونیورسٹی کے اسکول آف سوشل سائنسز کے پروفیسر ایلن فلسٹیڈ کا کہنا ہے کام کرنے کے روایتی انداز اب آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہے ہیں۔ پہلے یہ دفاتر، کارخانوں یا دکانوں میں ہوتا تھا، اب یہ وہاں سے نکل رہا ہے۔ ہماری تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ ایسے افراد، جو کسی دفتر میں جانے کے بجائے گھر یا کسی تیسرے مقام سے کام کرتے ہیں، یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ کسی سست الوجود کا کام نہیں۔ لیکن ایسے افراد کو کام اور آرام کے درمیان سرحد کا تعین کرنے میں مسائل درپیش ہیں۔
تحقیق میں 2001ء، 2006ء اور 2012ء میں لگ بھگ 15 ہزار افراد کے دیے گئے جوابات شامل ہیں، جن کے مطابق دفاتر میں کام کرنے والے ایک چوتھائی سے بھی کم افراد اپنے اوقاتِ کار سے بڑھ کر کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن گھر سے کام کرنے والے 39 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ وہ کام کو اضافی وقت دیتے ہیں، بلکہ کہیں زيادہ اور اوقات کار سے کہیں آگے تاکہ وہ کام کو مکمل کرنے اور بہتر بنانے میں ادارے کو مدد دے سکیں۔ اگر معاملہ کام کے لیے اضافی کوشش کرنے کا ہو تو لگ بھگ تین چوتھائی ایسے افراد ایسا کرتے ہیں، 73 فیصد، لیکن دفتر میں کام کرنے والے افراد میں یہ تعداد 68.5 فیصد ہے۔
پروفیسر فیلسٹیڈ کا کہنا ہے کہ یہ شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ گھر سے کام کرنے والے افراد یہ قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ گھر پر مزے نہیں کر رہے بلکہ دیا گیا کام محفوظ ہاتھوں میں ہے اور وہ اس کے لیے اضافی کوشش سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
تحقیق بتاتی ہے کہ برطانیہ میں روایتی دفاتر میں کام کرنے والے افراد کی تعداد 2001ء میں 74.8 فیصد سے گھٹ کر 2012ء میں 66.4 فیصد رہ گئی ہے۔ گھر سے کام کرنے والوں میں ہر شعبے میں اضافہ ہوا ہے، سوائے کارخانے کی نوکریوں کے۔
درحقیقت، یہ اتنی اچھی خبر نہیں ہے۔ "نیو ٹیکنالوجی، ورک اینڈ ایمپلائمنٹ” نامی جریدے کے مطابق گھر سے کام کرنے والے افراد کو کام ختم کرنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ نہ ہی انہیں گھر جانے والی آخری بس پکڑنے کی جلدی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کا "دفتر” بند ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کام کو بروقت بند کرکے آرام کرنے والے ایسے افراد کی تعداد 44 فیصد سے بھی کم ہے۔
پروفیسر فیلسٹیڈ کے الفاظ میں جب آپ دفتر جاتے ہیں تو چند حدیں متعین ہو جاتی ہیں جیسا کہ کس وقت پہنچنا ہے اور کس وقت واپس نکلنا ہے؟ لیکن جب آپ دفتر نہیں جاتے تو چاہے کام گھر سے کریں یا کیفے سے یا کسی تیسرے مقام سے، یہ حدود متعین کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر کام آرام و تفریح کے اوقات میں مداخلت کرتا ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ گھر سے کام کرنے کے چند مثبت پہلو بھی ہیں اور منفی بھی۔
Comments are closed.