نابینا افراد کے لئے دنیا کا پہلا اسمارٹ فون، تیاری کے مراحل میں
آئے دن ہم نے مختلف کمپنیوں کی جانب سے نت نئے اسمارٹ فونز کے بارے میں سنتے رہتے ہیں۔ ہر ہفتے ہی کوئی نیا اسمارٹ فون نئی فیچرز کے ساتھ مارکیٹ میں موجود ہوتا ہے۔ لیکن موبائل فونز کی اس ترقی سے نابینا افراد فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں۔ موبائل فونز بنانے والی کمپنیاں بھی اب تک کوئی ایسا فون پیش کرنے میں ناکام رہی ہیں جو بینائی سے محروم یا کمزور بینائی والے افراد کے لئے ہو۔
تاہم اب وہ دن زیادہ دور نہیں جب بینائی سے محروم افراد بھی اسمارٹ فون استعمال کرسکیں گے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن کے پوسٹ گریجویٹ بھارتی نوجوان ریسرچر "سُمت دگر” ایک ایسے اسمارٹ فون کا پروٹوٹائپ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس کی اسکرین ٹیکسٹ کو بریل پیٹرنز braille pattrens میں بدل دیتی ہے۔
سُمت دگر کے مطابق انہیں اس فون پر کام کرنے کا خیال اس وقت آیا جب انہیں احساس ہوا کہ جدید ٹیکنالوجی صرف عام لوگوں کو فائدہ پہنچا رہی تھی جبکہ معذور افراد کو نظر انداز کیا جارہا تھا۔ اس پروجیکٹ پر انہوں نے تین سال پہلے کام شروع کیا تھا جب وہ نینشل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن میں انٹرایکشن ڈیزائننگ کے طالب علم تھے۔ اس پروجیکٹ کے لئے انہوں نے اپنی نوکری کو خیرباد کہہ کراس ٹیکنالوجی پر اپنی توجہ مرکوز کردی۔ انہوں نے چھ افراد پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جو اب Kriyate Design Solutions کے نام سے کام کررہے ہیں۔ اس پروجیکٹ کے لئے امداد Rolex نے اپنے پروگرام Young Laureates Programme کے تحت فراہم کی ہے۔ اس پروگرام کے ذریعے ہر دو سال بعد دنیا بھر سے پانچ افراد منتخب کئے جاتے ہیں اور انہیں ان کے پروجیکٹس کے لئے مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔
یہ اسمارٹ فون جسے ابھی کوئی نام نہیں دیا گیا، شیپ میموری الوے ٹیکنالوجی Shape Memory Alloy کا استعمال کرتا ہے۔ یہ دراصل دھاتوں کا ایک بھرت ہوتا ہے جو اپنی اصلی شکل ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ جب انہیں گرمی پہنچائی جاتی ہے تو یہ مڑ کو پہلے سے متعین شکل اختیار کرلیتے ہیں اور جیسے ہی حرارت ہٹائی جاتی ہے، یہ واپس اپنی اصلی شکل میں آجاتے ہیں۔ موبائل فون کی اسکرین میں اسی بھرت سے بنی سینکڑوں پنز ہوتی ہیں جنہیں ضرورت کے مطابق ابھار کر درکار بریل پیٹرن بنایا جاسکتا ہے۔
فی الحال یہ فون بھارتی حیدرآباد کے ایل وی پرساد آئی انسٹی ٹیوٹ میں ٹیسٹ کیا جارہا ہے۔ سُمت کے مطابق نابیناؤں کے لئے ایک فون سے زیادہ ایک رفیق ثابت ہورہا ہے۔
Comments are closed.