ڈاگ، ایک نئی پروگرامنگ لینگویج
فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنا اسٹیٹس لکھ کر پوسٹ کرنا چند سیکنڈز کا کام ہے لیکن اس کام کو انجام دینے کے لئے ہزاروں یا شاید لاکھوں لائنز پر مشتمل پروگرامنگ کوڈ کار فرما ہوتا ہے۔ اسی پریشانی کا حل MITلیب کے پروفیسر سیپ کموار (Sep Kamvar)نے چند طلباء کی مدد سے ایک نئی پروگرامنگ لینگویج ’’ڈاگ‘‘ تیار کر کے کیا ہے۔ اس نئی پروگرامنگ لینگویج کی مدد سے ہر قسم کی سوشل ایپلی کیشنز بہ آسانی لکھی جاسکتی ہے۔ اس لینگویج کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں عام اور آسان انگلش استعمال کی گئی ہے جس کی وجہ سے اسے سیکھنااور استعمال کرنا مزید سہل ہوگیا ہے۔تاہم یہ نیچرل پروگرامنگ لینگویج نہیں اور نہ ہی اسے بنانے والے ایسا کوئی دعویٰ کرتے ہیں۔
ڈاگ کی ایجاد کے پیچھے سیپ کی وہ کوفت کارفرما تھی جو انہیں جاوا اور اس جیسی دیگر لینگویجز استعمال کرنے کے دوران ہوتی تھی۔ سیپ کے مطابق عام پروگرامنگ لینگویجز سوشل ایپلی کیشنز لکھنے کے لئے غیر ضروری طور پر پیچیدہ ہیں۔سیپ نے اسی پیچیدگی کو دور کرنے کے لئے ڈاگ لینگویج تیار کی جس کے ذریعے سوشل ایپلی کیشنز پر کئی جانے والے عام کام مثلاً لوگوں کی تلاش وغیرہ بے حد آسانی سے پروگرام کئے جاسکتے ہیں۔
سیپ نے ’’ سادگی‘‘ کے اصول کو اپناتے ہوئے ڈیٹا ٹائپس اور سینٹکس پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی جو کسی بھی پروگرامنگ لینگویج کے سب سے اہم حصے ہیں۔ سوشل نیٹ ورکس پر سب سے اہم شے ’’لوگ‘‘ اور ان کے درمیان روابط ہیں۔ اس لئے سیپ نے ڈاگ لینگویج میں ایک نئی ڈیٹا ٹائپ متعارف کروائی ہے جس میں بطور ڈیٹا کوئی انٹجر، اسٹرنگ، ریئل یا بائنری نمبر نہیںبلکہ ’’لوگ‘‘ محفوظ کئے جاسکتے ہیں۔ اس طرح ’’لوگوں‘‘ کے حوالے سے کوئی بھی آپریشن بے حد آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی ڈاگ کے سینٹکس کو عام انگلش جیسا بنایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر Ask،Notify، Listenوغیرہ کے آسان کی ورڈز کے ذریعے سوشل ایپلی کیشنز کے بنیادی کام انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ زیادہ پیچیدہ کام جو ڈاگ میں ممکن نہ ہوں، انہیں دوسری پروگرامنگ لینگویجز میں لکھا جاسکتا ہے۔
ڈاگ پروگرامنگ لینگویج اگلے چند ماہ میں بطور پرائیوٹ بی ٹا ریلیز کی جائے گی جبکہ پبلک ورژن بعد میں جاری کیا جائے گا۔ یہ مفت اور اوپن سورس ہوگی لہٰذا اس میں ڈیویلپر اپنی ضرورت کے مطابق تبدیلی بھی کرسکیں گے۔ فی الحال یہ بطور سرور سائیڈ لینگویج دستیاب ہے لیکن اسے بنانے والی ٹیم ایک کلائنٹ سائیڈ ورژن پر بھی کام کررہی ہے۔
Comments are closed.