وٹس ایپ فار بزنس، وٹس ایپ بھی پیسے کمانا چاہتا ہے
وٹس ایپ جسے دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد لوگ استعمال کرتے ہیں، ایک نیا نظام جانچ رہا ہے۔ اس نظام کے لاگو ہونے کے بعد کاروباری ادارے براہ راست وٹس ایپ صارفین سے چیٹ کر سکیں گے۔فی الحال صرف Y Combinatorاسٹارٹ انکیوبیٹر کی چند کمپنیاں ہی اس کی جانچ کررہی ہیں۔ فیس بک کایہ نیا قدم اس کا وٹس ایپ سے پیسے کمانے کے منصوبے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
فیس بک نے تین سال پہلے وٹس ایپ کو 19 ارب ڈالر کی خطیر رقم کے عوض خریدا تھا۔ جس وقت وٹس ایپ کو خریدا گیا اس وقت بھی وٹس ایپ کی کمائی بہت محدود تھی اور آج بھی وہی صورت حال ہے۔ وٹس ایپ پر اشتہارات چلا کر باآسانی کمائی کی جاسکتی تھی، لیکن یہ وٹس ایپ کے اپنے متعین کردہ ضوابط کی نفی ہوگی۔ فیس بک نے اب تک وٹس ایپ سے باقاعدہ کمانے کے لئے کسی منصوبے کا اعلان نہیں کیا تھا۔ یہ پہلی بار ہے کہ فیس بک کی جانب سے ایسی کچھ سن گن ملی ہے۔
وٹس ایپ دنیا کی معروف ترین ایپلی کیشنز میں شمار کی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے صارفین بغیر کوئی رقم ادا کئے ایک دوسرے کو ٹیکسٹ، آڈیو اور ویڈیو پیغامات کے علاوہ آڈیو اور وڈیو کال بھی کرسکتے ہیں۔ ویسے تو وٹس ایپ جیسی خصوصیات والی کئی ایپلی کیشنز موجود ہیں، لیکن اگر صحیح معنوں میں کسی ایپلی کیشن نے وٹس ایپ کو ٹکر دے رکھی ہے تو چینی کمپنی کی ایپلی کیشن WeChat ہے۔ وی چیٹ اشتہارات چلا کر پیسے کماتی ہے۔ جبکہ وٹس ایپ کا ایک متوقع آمدنی کا ذریعہ اُن کاروباری اداروں سے پیسے چارج کرنا ہے جو صارفین سے بات کرنا چاہے۔مگر کمپنی کو اسپیم پیغامات کا خطرہ ہے۔ اس لئے کمپنی بہت احتیاط سے کام کررہی ہے۔ کمپنی کی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وٹس ایپ اپنے صارفین سے سروے کررہا ہے کہ وہ مختلف کاروباری اداروں سے وٹس ایپ پر کتنی بات چیت کرتے ہیں اور کیا انہیں اسپیم پیغامات کا سامنا ہے یا نہیں۔
وٹس ایپ نے پچھلے سال ایپلی کیشن پروگرامنگ انٹرفیس یا اے پی آئی سسٹم بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت بنائے گئے سسٹم سے صارفین اپنے بنک سے کسی مشکوک ٹرانزیکشن یا اپنی ایئر لائن سے فلائٹ میں تاخیر کے حوالے سے بات چیت کرسکتے تھے۔ گزشتہ ماہ وٹس ایپ نے Y Combinator سے ایک معاہدہ بھی کیا تھا۔ وائی کومبی نیٹر اسٹارٹ اپس کو ٹریننگ اور مشورے کی خدمات فراہم کرتا ہے۔ ۔ اس معاہدے کا مقصد کچھ اسٹارٹ اپس کو فیس بک کے نئے نظام کی جانچ پڑتال کے لئے شامل کرنا تھا۔ یاد رہے کہ Y Combinator جس کا قیام 2005 میں عمل میں آیا، میں شمولیت بے حد مشکل کام ہے۔ ماضی میں Airbnb اور Dropbox جیسی کمپنیاں بھی وائی کومبی نیٹر سے منسلک تھیں۔
دوسری جانب وٹس ایپ کے ترجمان نے نئے کاروباری سسٹم پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔جبکہ وائی کومبی نیٹر کے صدر سام الٹ مین نے اپنی ای میل میں کہا کہ انہیں وٹس ایپ کے کسی ٹیسٹ کا علم نہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہت سی کمپنیاں اپنی مصنوعات کو وائی کومبی نیٹر کی اسٹارٹ اپ کمپنیوں کے ساتھ جانچنا چاہتی ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ 126 میں شائع ہوئی
اگر آپ یہ اور اس جیسی درجنوں معلوماتی تحاریر پڑھنا چاہتے ہیں تو گھر بیٹھے کمپیوٹنگ کا تازہ شمارہ حاصل کریں۔
Comments are closed.