کسی بھی اسمارٹ فون کی تھری جی، فور جی یا ایل ای ٹی سپورٹ چیک کریں
تھری جی، فور جی اور ایل ٹی ای انٹرنیٹ کی آمد نے ہمارے لیے انتہائی سہولت فراہم کر دی ہے۔ اب سبھی کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے پاس ایسا اسمارٹ فون ہو جس پر وہ اس تیز رفتار انٹرنیٹ سے لطف اندوز ہو سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ مارکیٹ میں دستیاب تقریباً تمام اسمارٹ فونز میں تھری جی، فور جی یا ایل ٹی ای کی سپورٹ موجود ہوتی ہے۔ آج کل بیرون سے استعمال شدہ فون منگوا کر بھی بھیجے جا رہے ہیں۔ اگرچہ ان میں تھری جی وغیرہ کی سپورٹ موجود ہوتی ہے لیکن عام صارفین کو یہ نہیں پتا چلتا کہ ان پر پاکستانی موبائل نیٹ ورک کمپنیز کا فراہم کردہ تھری جی انٹرنیٹ چلے گا کہ نہیں۔ کیونکہ یہ فون دوسرے ممالک میں کنٹریکٹ کے ساتھ موبائل کمپنیاں بیچتی ہیں اور ان میں انہی کے تھری جی انٹرنیٹ کی فریکوئنسی کی سپورٹ موجود ہوتی ہے۔
اس لیے کوئی بھی فون خریدنے سے پہلے یہ ضرور چیک کر لیں کہ آپ کی موجودہ نیٹ ورک کمپنی کا تھری جی، فور جی یا ایل ٹی ای انٹرنیٹ اس پر چلے گا یا نہیں۔ اس کے لیے آپ کو دکاندار کا احسان لینے کی ضرورت نہیں، یہ آپ آن لائن بھی باآسانی چیک کر سکتے ہیں۔
یہ چیک کرنے کے لیے کہ کون سا اسمارٹ فون کون سا انٹرنیٹ چلا سکتا ہے اس کے لیے ’’وِل مائی فون ورک‘‘ کی ویب سائٹ پر جائیں:
اس ویب سائٹ پر اسمارٹ فون کے تقریباً تمام معروف ماڈلز کے بارے میں جانا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ممالک کی بھی ایک لمبی فہرست موجود ہے، یعنی کسی بھی فون کے بارے میں کسی بھی ملک کے موبائل فون نیٹ ورکس کے حوالے سے تھری جی انٹرنیٹ کی سپورٹ کے بارے میں جانا جا سکتا ہے۔
یہ ویب سائٹ کھولنے کے بعد اپنے فون کی تفصیلات بتائیں۔ سب سے پہلے فون کی کمپنی منتخب کریں جیسے کہ سام سنگ، ایپل یا موٹرولا وغیرہ۔ اس کے بعد اس کا بالکل درست ماڈل منتخب کریں۔
اس کے نیچے ممالک ڈراپ ڈاؤن فہرست کی صورت میں موجود ہیں۔ اس میں سے اپنا مطلوبہ ملک منتخب کریں۔
درست ملک کا انتخاب کرنے کے بعد اس کی موبائل نیٹ ورک کمپنیز کی فہرست آجائے گی۔ اس میں سے اپنی مطلوبہ کمپنی کا انتخاب کریں۔
یہ تمام سیٹنگز کرنے کے بعد نیچے موجود Search کے بٹن پر کلک کر دیں۔ فوراً ہی آپ کو نتائج سے آگاہ کر دیا جائے گا کہ آپ کا منتخب کردہ فون کا ماڈل، آپ کے منتخب کردہ نیٹ ورک کا کون کون سا انٹرنیٹ یعنی تھری، فور جی یا ایل ای ٹی چلا سکتا ہے یا نہیں۔
(یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ اکتوبر 2015 میں شائع ہوئی)
Comments are closed.