یورپی یونی ورسٹیز میں داخلے کے لیے رہنما ویب سائٹ

’’اسٹڈی پورٹلز‘‘ ایسے تمام طلبا و طالبات جو یورپ میں جا کر اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہیں، کے لیے ایک انتہائی اہم ویب سائٹ ہے جو کہ یورپ میں کسی بھی یونیورسٹی میں کسی بھی کورس کو ڈھونڈ کر دیتی ہے اور اس طرح ایجنٹوں کے ہاتھ کھلونا بننے سے بچا سکتا ہے۔
http://www.studyportals.eu
ماسٹر پورٹلز پر آپ ماسٹرز، بیچلر، شارٹ کورس، پی ایچ ڈی اور اسکالر شپ تک ڈھونڈ سکتے ہیں۔
mastersportal_eu1
یہاں سب سے پہلے آپ اپنی مرضی کا کوئی موضوع چنیں کہ آپ کس جماعت میں داخلہ لینے کے خواہشمند ہیں۔ ہم ماسٹرز کو مثال بناتے ہوئے آگے چلتے ہیں۔
mastersportal_eu2
یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس سائٹ پر 20 592 مختلف یونیورسٹیز کے ماسٹرز میں داخلے موجود ہیں۔ اب اگلا قدم ہے کہ کس شعبے میں آپ ماسٹرز کرنا چاہتے ہیں۔شعبے اور ان کی ذیلی شاخیں اس میں موجود ہیں آپ کو صرف ڈراپ ڈاؤن لسٹ سے کوئی ایک چننا ہے۔نیچے تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہم نے سوشل سائنس میں جغرافیہ چنا ہے۔ اس میں آرٹ، بزنس /اکنامکس، سائنس، سوشل سائنس اور قانون کے شعبے بھی میسر ہیں۔
mastersportal_eu3
ہم نے سرچ پر کلک کر دیا اور ہمارا رزلٹ سامنے ہے:
mastersportal_eu4
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ نہ صرف یونیورسٹی کا نام بتایا گیا ہے بلکہ کورس کی تفصیل، کس زبان میں پڑھا یا جا رہا ہے ، یونیورسٹی کس ملک میں واقع ہے اور فیس کتنی ہے یہمعلومات بھی موجود ہے۔اگر آپ نیچے دیے گئے ڈیٹیل ڈسکرپشن بٹن پر کلک کریں تو کورس کی ساری تفصیل آپ کے سامنے آ جاتی ہے۔
mastersportal_eu5
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اوپر دیے گئے لنک میں کورس کی تفصیل امیدوار کی قابلیت ہر شے تفصیل سے بتائی گئی ہے۔ یہاں سے آپ کسی بھی یونیورسٹی میں رابطہ کر کے خود داخلہ لے سکتے ہیں جبکہ بہت سے کورس مفت بھی آفر کیے جاتے ہیں تو یہ آپ کی ڈھونڈنے کی قابلیت پر رہ جاتا ہے۔ اس کے بعد صرف ویزا کا حصول ایک مرحلہ رہ جاتا ہے اور اگر آپ کی یونیورسٹی اچھی ہے اور آپ نے فیس بھر دی ہے تو ویزا کم کم ہی مسترد کیا جاتا ہے۔
یونیورسٹی کی رینکنگ دیکھنے کے لیے آپ اس سائٹ کی مدد لے سکتے ہیں۔
http://www.webometrics.info
یہاں پر آپ نہ صرف دنیا بھر کی رینکنگ دیکھ سکتے ہیں بلکہ براعظم کے حساب سے رینکنگ ، ملک کے حساب سے رینگ اور شعبے کے لحاظ سے رینکنگ بھی دیکھ سکتے ہیں۔

تحریر جاری ہے۔ یہ بھی پڑھیں

(یہ تحریر کمپیوٹنگ شمارہ اپریل 2013 میں شائع ہوئی)

Comments are closed.