یادداشت بہتر بنانے کے لیے مصنوعی اعضاء کی تیاری
اچھی یادداشت تو سب چاہتے ہیں۔ کیا آپ نہیں چاہتے کہ امتحانات کے دوران سب کچھ اچھی طرح یاد رہے، یا پھر دفتر میں پریزنٹیشن دینی ہو، یا نئی ملازمت کا انٹرویو دینا ہو، اگر کسی طریقے سے یادداشت بہتر ہونے لگے تو شاید ہم پیسے دے کر بھی لے لیں۔
تو دل تھام کر بیٹھیں کہ یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے سائنس دان کچھ ایسے ہی منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ ‘نیو سائنٹسٹ’ کے مطابق ٹیم نے ایک "میموری پروستھیسس” memory prosthesis یعنی یادداشت کے لیے مصنوعی عضو تیار کیا ہے جسے دماغ میں لگایا جا سکے گا اور یہ انسانی یادداشت کو بہتر بنائے گا۔ اس کے نتائج واشنگٹن ڈی سی میں سوسائٹی فار نیوروسائنس میں پیش کیے گئے ہیں۔
یہ ڈیوائس الیکٹروڈز پر مبنی ہے جسے تجرباتی طور پر مختلف افراد کے دماغ میں لگایا گیا ہے۔ یہ دماغ کے سیکھنے اور یادداشت کے حصے ہپوکیمپس کو ویسے ہی مائیکرو الیکٹرک شاکس (micro electric shocks) دے گی جیسے قدرتی عمل کے دوران ہوتا ہے۔ یہ ڈیوائس عام دماغی سرگرمی کی نقل کرے گی اور سائنس دانوں کو امید ہے کہ نسیان جیسے مرض میں مبتلا افراد کو مدد دے سکتی ہے۔
20 رضاکاروں پر مشتمل ایک گروپ کے یہ الیکٹروڈز لگائے گئے اور یادداشت کے سادہ کھیل کے حامل تربیتی سیشن میں شرکت کرنے کو کہا گیا۔ ہر شریک کو مختصر پریزنٹیشن میں چند تصاویر دکھائی گئی اور 75 سیکنڈز بعد ان سے انہی تصاویر کا تذکرہ کرنے کو کہا گیا۔ سائنس دانوں نے اس موقع پر نیورونز کی سرگرمی پر نظر رکھی کہ یادداشت کے استعمال کے دوران دماغ کے کون سے حصے میں تحریک پیدا ہو رہی ہے؟ پھر دوسرے سیشن میں مائیکرو-الیکٹرک شاکس کے ذریعے دماغ کے ان مخصوص حصوں کو تحریک دی گئی۔
تحقیق کے مطابق ڈیوائس یادداشت کو 30 فیصد تک بہتر بنا سکتی ہے۔ سائنسدانوں کو امید ہے کہ مستقبل میں اسے یادداشت، نظر یا حرکت بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں بایومیڈیکل انجینیئرنگ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور تحقیق میں شریک ڈونگ سونگ نے کہا کہ "ہم یادداشت کو بہتر بنانے کے لیے نیورل کوڈ لکھ رہے ہیں اور ایسا پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔”
Comments are closed.