کیوموبائل کا بڑا فراڈ پکڑا گیا، قومی خزانے کو اربوں کا نقصان
کیو موبائل نے ٹیکس سے بچنے کے لیے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ مینوفیکچرر کا لبادہ اوڑھ کر فون برآمدکرنے والے ادارے کے خلاف تازہ ترین کارروائی نے پینڈورا بکس کھول دیا ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ایڈیشنل ڈائریکٹوریٹ آف انٹرنل آڈٹ کی انسپیکشن رپورٹ نے ثابت کیا ہے کہ کیو موبائل کے پاکستان میں مینوفیکچرنگ کرنے کے دعوے غلط ہیں اور بتایا ہے کہ کیو موبائل صرف ٹیکس بچانے کے لیے مینوفیکچرر کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔ پھر اس امر کی بھی کوئی شہادت نہیں ہے کہ کیوموبائل کے چینی مالک، مینوفیکچرر اور پیٹنٹ ہولڈرز کی جانب سے ڈجی کام ٹریڈنگ پرائیوٹ لمیٹڈ کو ٹیکنالوجی منتقل کی جا رہی ہے، کیونکہ کیوموبائل کے فونز خام مال کے طور پر ملک میں درآمد کیے گئے ہیں۔ "اب تک قومی خزانے کو پہنچنے والے کل نقصان کا تو اندازہ نہیں، البتہ ایک جامع آڈٹ سے اس کا تخمینہ لگایا جا سکتا ہے۔”
یہ بھی پایا گیا کہ ڈجی کام نے بھی ایف بی آر کو دھوکا دیا اور اپنے ملازمین کی جعلی تصاویر پیش کرکے خود کو مینوفیکچرر ظاہر کیا تھا۔ اس نے اپنے ساتھی ادارے نیو الائیڈ الیکٹرونکس کی جانب سے ایک کمرا بھی کرائے پر لے رکھا تھا۔ ادارے نے اگست 2014ء میں خود کو مینوفیکچرر ظاہر کرنے کی تصدیق کے لیے بجلی کا بل بھی پیش کیا گیا تھا۔
تفتیشی رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ کیو موبائل مینوفیکچرر کا درجہ پانے کا اہل نہیں تھا، وہ محض ایک امپورٹر یعنی درآمد کنندہ تھا۔ مینوفیکچرر کا درجہ ایک انسپکٹر کے دورے کے بعد دیا گیا تھا جبکہ ادارہ 2009ء سے 2014ء تک اسے ایک درآمد کنندہ ہی سمجھا جاتا تھا۔ دستاویزات مزید ظاہر کرتی ہیں کہ ادارے کے ایک انسپکٹر نے 25 اگست 2014ء کو سائٹ کا دورہ کیا، جس کے بعد ادارے کو مینوفیکچرر کا درجہ دیا گیا۔ حالانکہ ادارہ کیو موبائل کے تمام فونز کی اسمبلنگ کو ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا تھا۔ کیوموبائل نے 18 جون 2013ء کو مینوفیکچرر کی رجسٹریشن حاصل کی تھی، جبکہ اکتوبر 2014ء تک امپورٹر یعنی درآمد کنندہ ہی کہلاتا تھا۔
ایف بی آر کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق "بین الاقوامی اور ملکی مارکیٹوں کے رحجانات کے مطابق کسی بھی مخصوص یا جامع معاہدے کے بغیر کوئی بھی تقسیم کار اسمبلنگ یا کسی بھی قسم کی ویلیو ایڈیشن، چاہے وہ سافٹویئر کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو، نہیں کر سکتا۔”
ایف بی آر کی انسپکشن ٹیم نے اس معاملے کی جامع تحقیقات اور مینوفیکچرر کی حیثیت سے کیو موبائل کی رجسٹریشن فوری طور پر منسوخ کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس نے ڈیفالٹ سرچارج کے ساتھ آمدنی اور ڈجی کام سے جرمانہ وصول کرنے اور قانونی کارروائی کے لیے ادارے کو بلاک اور بلیک لسٹ کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ اس نے کیو موبائل کے ریٹیلر اور مینوفیکچرر ہونے کے درجے پر بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا کیونکہ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کا تعین کسی ریٹیلر کے اسٹیٹس کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے۔
ایف بی آر کی تحقیقاتی رپورٹ نے کروڑوں روپے کے ٹیکس ریفنڈ پر بھی سوالات اٹھائے ہیں کیونکہ کیوموبائل نے ٹیکس ریٹرنز میں تبدیلیاں کرکے بھی مالی فائدے حاصل کیے۔ دستاویزات کے مطابق کیوموبائل نے ایف بی آر حکام کے روبرو جعلی دعوے کرکے 58.6 ملین کے ٹیکس ریفنڈ حاصل کیے ۔ پھر کسٹمز حکام کو بھی دھوکا دے کر ملک میں کیوموبائل فون درآمد کیے اور انہیں خام مال کے طور پر پیش کیا ۔
رپورٹ سفارش کرتی ہے کہ ادارے کے پرانے ریکارڈز اور حقائق کی جامع چھان بین کی جائے اور ساتھ ہی غیر ملکی اداروں کے تمام پرانے اور نئے معاہدے کی تصدیق کا بھی مطالبہ کیا ہے تاکہ قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکے ۔
Comments are closed.